اس سکول میں موجود خواتین شکور کو بغور سن رہی تھیں جب وہ انھیں اُن کا پہلا سبق پڑھا رہے تھے۔ اس کورس میں شہریت، مذہبی اخلاقیات اور غصے پر قابو پانے جیسے موضوعات شامل ہیں۔ کلاس کی دیواروں پر لگے پوسٹرز اپنے جذبات پر قابو پانے کے طریقے بتاتے ہیں۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ، یہاں ان خاندانوں کو طبی علاج، نفسیاتی مدد، اورکئی سالوں میں پہلی بار مناسب خوراک، پانی، اور رہائش دی جا ریی ہے۔
کچھ ممالک ان جیسی خواتین کو وطن واپس بلانے سے انکاری ہیں۔ ان میں سے اکثر خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہروں، والدین اور بھائیوں کی پیروی کرتے ہوئے نادانستہ طور پر میدانِ جنگ میں چلی گئیں تھیں۔ وہاں ان کے ساتھ وہ بتاتی ہیں کہ ’وہاں خواتین بیمار تھیں اور بچے ہر وقت روتے رہتے تھے۔ ہم ان سے گزارش کرتے تھے کہ ہمیں جانے دیں۔‘
فاطمہ کہتی ہیں کہ وہ بمشکل وہاں سے زندہ نکل پائے۔ ’جب کرغزستان سے لوگ پہلے گروپ کو واپس لے جانے کے لیے آئے تو سب حیران رہ گئے۔‘
اکتوبر میں، ان کی بیٹی اور پوتے پوتیوں کو بتایا گیا کہ انھیں وطن واپس لے جایا جا رہا ہے، لیکن فاطمہ کا نام واپس جانے والوں کی فہرست میں نہیں تھاکیا ہوا، انھوں نے وہاں کیا کیا یہ سب نام نہاد خلافت کے ملبے میں دب کے رہ گیا ہے
No comments:
Post a Comment